*سرائیکستان قومی موومنٹ سماجی لسانی ثقافتی طبقاتی سیاسی تنظیم*
سرائیکستان کابنیادی فلسفه
تحریر:حمید اصغر شاہین
بعنوان:چلھ دی خیرتےکل دی خیر
کسی بھی قوم کے لئے ایک اجتماعی گھر ضروری ہے۔ اور ہر گھر کا ایک جغرافیہ ضروری ہے اور ہر گھر کے شمال جنوب مغرب مشرق میں ہمسایہ گھر ہوتے ہیں یعنی سرائیکستان کے قرب و جوار میں کوئی گھر یا اجتماعی ریاستیں ہیں ان کا بھی کوئی اجتماعی تشخص ہے۔ جب سرائیکستان کی قومی ریاست کی بات آتی ہے تو سرائیکستان میں رہنے والوں کا وہ گھر تصور ہوگی اور گھر کی طرح اس گھر کے رہنے والوں کو اقتدار اعلیٰ اور اس گھر کے وسائل منقولہ و غیر منقولہ پر دسترس حاصل ہوگی۔ سرائیکستان کے قرب وجوار میں پشتون جن کے گھر کو صوبہ سرحد کہا جاتا ہے، بلوچیوں کے گھر کو بلوچستان کہا جاتا ہے، سندھی جن کے گھر کو سندھ کہا جاتا ہے اور پنجابی جن کے گھر کو پنجاب کہا جاتا ہے، سرائیکی بطور قوم تو درمیان میں موجود ہیں لیکن ان کا مخصوص گھر نہیں ہے، بلکہ ان کے جغرافیے کے گھر کی حدود پر پنجابی اور پشتونوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کا اپنا علیحدہ تشخص ، زبان اور ثقافت ہونے کے باوجود ان کو حکمرانی کی سطح پر بطور حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اسی لئے چھ کروڑ انسانوں نے اپنے تشخص، اپنی ثقافت ، اپنی جغرافیائی ملکیت کے تحفظ کے لئے ایک اجتماعی جد و جہد کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے انہیں ایک تنظیم ”سرائیکستان قومی موومنٹ“ بنانی پڑی اور یہ نام انہوں نے اس لئے تجویز کیا ہے کہ اگر سرائیکی قومی موومنٹ ہوتی تو اس مخصوص خطہ میں صرف سرائیکیوں کو اجتماعی حقوق حاصل ہوتے ۔ سرائیکستان قومی موومنٹ کی وجہ سے اس خطہ میں رہنے والی تمام اقوام چاہے وہ گھرمیں کوئی زبان بولتی ہوں، ان کا کوئی عقیدہ ہو، کوئی رنگ ہو، کوئی نسل ہوا نہیں بھی اس خطے میں رہنے کا برابر حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ دوسری اقلیتیں مثلا نسلی ہوں ، لسانی ہوں یا مذہبی ہوں وہ بھی اکثریت کے حق کو تسلیم کرتی ہوں اور سرائیکستان کی قومیتی ریاست کی وفادار ہوں کسی کی آلہ کارنہ ہوں ۔ اسی وجہ سے سرائیکستان قومی موومنٹ کا بنیادی فلسفہ ریاست "چُلھ دی خیر تاں گل دی خیر" ماں کی جھولی سے شروع ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت ہر بچہ ننگا انسان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے عقیدہ کی تشخیص والدین کرتے ہیں ۔ مسلمان بچے کے لئے اس کے کان میں آذان دی جاتی ہے لیکن بھوک کے لئے بچہ چیختا ہے، ماں دودھ کا بندو بست کرتی ہے۔ لیکن جب چیخنے کی بجائے اظہار کا وقت آتا ہے تو بچہ بغیر کسی استاد کے اپنے ماحول کی زبان کو قبول اور اظہار کرتا ہے۔ اور یہیں سے اس کی ثقافتی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اور یہ اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور مذہب بھی اسکی ثقافت کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر گھر میں والدین نماز پڑھتے ہیں تو بچہ اسے بطور وراثت قبول کرتا ہے۔ جیسے کھانے پینے ، نہانے ، اٹھنے بیٹھنے اپنی ماں سے حق کو مانگنے، پسند کا لباس مخصوص چار پائی ، گانا بجانا ،شادی کی رسومات ماں باپ کا آپس میں اجتماعی تعلق اور پھر بچہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے دوسرے گھروں کے بچوں ، مختلف عبادت گاہوں ،مختلف تعلیمی اداروں ، ٹرانسپورٹ کے ذرائع ، گٹر گلی کا ماحول سب سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہیں سے اسکی اجتماعی ثقافت اور اجتماعی شعور کو بڑھاوا ملتا ہے ۔ گلی سے سڑک ، سڑک سے محلہ ،محلہ سے شہر ، شہر سے وسیب پھر اجتماعی ریاست کے ساتھ جُڑتا اور پروان چڑھتا ہے۔ جوان ہو کر اس کا مالک بنتا ہے یا گھر کی مالکہ بنتی ہے۔ لیکن پھر بھی گھر کی اہمیت اور ماں کی جھولی کی اہمیت ختم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جس کا اولاد کے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ، ماں کی مامتا سے ہے۔ چاہے بچے کا کوئی عقیدہ ہو، کوئی کریکٹر ہو، ماں کی محبت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ گھر ایک ابتدائی ریاست ہے جو نظام کو چلانے کی تربیت گاہ ہے۔ جب اجتماعی ریاست، انتظامی یونٹ یا ملک کا کردار ماں کا ہوگا، سوتیلی ماں کا نہیں ہوگا تو پھر ریاست اور ملک میں امن ہوگا۔ احساس محرومیت نہیں ہوگا ۔ بچے آپس میں تقسیم نہیں ہوں گے ۔ گھر کا اجتماعی نظام چلتا رہے گا۔ اگر تقسیم میں کہیں نا انصافی ہوگی تو مختلف ناموں کے تشخص کے درمیان گھروں کی تقسیم بھی لازمی ہوگی۔ ان حالات میں سرائیکستان کے لوگ اپنی ریاست چاہتے ہیں جو کہ موجودہ ملک میں جغرافیائی طور پر مرکز میں واقع ہے اور اس کے چاروں طرف دوسری اقوام کے گھر اور ریاستیں واقع ہیں ۔ یعنی ہمارے پشتون اور پنجابی ہمسایوں نے ہمارے جغرافیے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ نہ ہمارے جغرافیائی حق کو تسلیم کرتے ہیں نہ ناجائز قبضہ چھوڑتے ہیں اور نہ ہی ہماری ثقافتی اور لسانی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں یعنی وہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ماں کی جھولی کی حیثیت میں فطرت کے طور پر عطاء کئے ہیں جیسا کہ ماں مٹی سے پیدا ہوئی جب ہم عبادت کے لئے بڑھے تو تصورِ خدا کے باوجود سجدہ زمین پر کرنا پڑا۔ اذان عربی میں دی گئی، معنی فطری زبان سرائیکی میں سمجھائے گئے۔ موت اور تدفین کے وقت پھر مٹی نصیب ہوئی۔ یعنی گھر وطن اور اس سے محبت، لسانیت بطور شناخت انسانی فطرت ہے جو لسانیت سے نفرت کرتے ہیں وہ فطرت کے باغی ہیں وہ انسان نہیں کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ بس! یہی سرائیکستان قومی موومنٹ کا انسانی بقا کے لئے فلسفہ ہے اورسرائیکستان کے قیام کے لئے اسکی بنیادی ضرورت سرائیکستان قومی موومنٹ ہے۔ ____________
ریاست اورصوبےمیں فرق
ریاست جس کا تصور ماں کی جھولی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے وہی ہی انسانی بنیادوں کے لئے اجتماعی تحفظ کی ضمانت مہیا کر سکتا ہے جو انسانی فطرت کے قریب اور شعوری عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس ریاست کی لسانی ، ثقافتی اور مذہبی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اور اگر مختلف ریاستیں مل کر اجتماعی طور پر زندہ رہنا چاہتی ہوں تو وہ آپس میں عمرانی معاہدہ کرتی ہیں کہ وہ کن شرائط پر اکھٹے رہیں گی ۔ ان کی اجتماعی شناخت کا نام فیڈریشن ، کنفیڈریشن ہوگا یا کچھ ہو سکتا ہے جو وہ پسند کریں گے۔ فیڈریشن یا کنفیڈریشن کو چلانے کیلئے فنڈز ریاستیں کیسے مہیا کریں گی ، فیڈریشن یا کنفیڈریشن کے سربراہ کا انتخاب کیسا ہوگا، انتظامی ڈھانچہ کس طرح ہوگا۔ انتظام کو چلانے کے لئے فوج، پولیس، رینجرز ریاستوں کے درمیان تنازعات کو طے کرنے کے لئے عدالتی سسٹم کیسا ہوگا۔ ریاستیں اندرونی طور پر اپنے نظام کا تعین خود کریں گی۔ یعنی اختیارات ریاستیں اور اس میں بسنے والی قو میں مرکز کو رضا کارانہ طور پر تفویض کریں گی۔ جبکہ صوبہ کی صورت میں اختیارات مرکز تقسیم کرتا ہے اور مرکز کو قانون سازی کے لئے بھی صوبوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ مرکز کا ایک جعلی قومی تصور ہوتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے تحت انتظامی یونٹ کو اختیارات تفویض کرتا ہے، وسائل مہیا کرتا ہے، جب چاہے اختیار واپس چھین لیتا ہے اور یہی کچھ پاکستان میں قیام سے لے کر آج تک ہو رہا ہے۔ سندھیوں ، بلوچوں اور پشتونوں کے انتظامی یونٹ تو موجود ہیں ۔ مگر وہی انتظامی یونٹ بغیر کسی بنیادی حقوق کے سب سے زیادہ انتشار کا شکار ہیں ۔ پشتونوں اور بلوچوں پر بمباریاں ہو رہی ہیں ، سندھی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اندرونی و بیرونی مہاجرین کا مسئلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، بیرونی مداخلت مذہب اور جمہوریت کے نام پر جاری ہے۔ مرکز بیرونی قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ قومیں قومی ریاستوں کے بغیر انتظامی یونٹوں کی وجہ سے غلام بنی ہوئی ہیں ۔ اس لئے سرائیکستان قومی مومنٹ قومی ریاست کی بات کرتی ہے تا کہ قومیں پشتون ، بلوچ ،سندھی، پنجابی اور سرائیکی بطور قوم مل کر نیا عمرانی معاہدہ کریں جس کے لئے دستور ساز اسمبلی کے الیکشن ضروری ہیں تا کہ دستور ساز اسمبلی دستور بنا کر خود بخود ختم ہو جائے پھر قانون ساز اسمبلی کے لئے الیکشن کرائے جائیں ۔ الیکشن کے نتیجہ میں بننے والی حکومت دستور کے مطابق قانونی انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ تشکیل دے کر انسانوں کی بقاء کے لئے دستور پر عمل درآمد کرائے تاکہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق روٹی ، کپڑا مکان ، علاج ، بیروزگاری ، تعلیم ، مذاہب کا احترام ، ثقافتوں اور زبانوں کے احترام کی ضمانت ریاست مہیا کرے۔
__________________
سرائیکی قوم تے ہمسایہ قوماں
دستور ساز اسمبلی کا قیام کیسے ممکن هے ؟
سرائیکی قوم کی ضرورت ایک قومی ریاست ہے جسکی جغرافیائی حیثیت کو معدوم کر دیا گیا ہے جس پر پنجابیوں اور پشتونوں کا قبضہ ہے۔ اس قبضہ کو واگزار کرانے کے لئے سرائیکستان کے لوگوں کو سڑکوں پر آکر بھر پورتحریک چلانا ہوگی ۔ اپنی جغرافیائی حیثیت زرعی و سائل زیر زمین وسائل آبی گزرگاہوں تک رسائی رسل و رسائل پر قبضہ با صلاحیت افرادی قوت کی وجہ سے سرائیکستان کے لوگ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمسایہ قوموں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اکھٹار ہنا چاہتی ہیں تو نا جائز قبضہ سے دستبردار ہو جائیں۔ سرائیکیوں کا جغرافیہ واگزار کر دیں۔ نئی دستور ساز اسمبلی کے الیکشن کے لئے تیار ہو جائیں۔ تاکہ ہر قومی ریاست جس قسم کا معاشی نظام چاہے وہ اندرونی طور پر اختیار کرے جیسا کہ سرائیکستان قومی موومنٹ کا بنیادی فلسفہ ہے کہ جاگیرداری نظام کا خاتمہ کئے بغیر نہ قومی ریاست کا حصول ممکن ہے نہ قیام ممکن ہے نہ استحکام ممکن ہے۔ اس کے لئے ہمارے شعراء ادیب دانشور، کسان مزدور شعوری جد و جہد کر رہے ہیں اور اس جدو جہد کی قیادت مظلوم طبقات کے پاس ہے۔ جبکہ سندھیوں ، پشتونوں ، بلوچیوں کی قیادتیں، مراعات یافتہ جاگیرداروں ، ملکوں اور قبائلی سرداروں کے پاس ہیں ۔ جو اپنے طبقاتی مفادات کو قومی مفادات کا نام دے کر لوگوں کے ساتھ متواتر دھوکہ کر رہے ہیں۔ اسی تجربہ کی بنیاد پر خطہ سرائیکستان کے لوگ اپنے علاقہ کے انگریزوں کے مراعات یافتہ پنجابیوں کے غلام لا ہور اور اسلام آباد میں سکونت پذیر جاگیرداروں ، گدی نشینوں کو اپنی بقا کے لئے صف اول کا دشمن تصور کرتے ہیں جن سے چھٹکارا ضروری ہے اور ساتھ ہی سرائیکستان قومی تحریک کے کارکنان اپنے خطہ کے مذہبی اداروں کے منتظمین کے ساتھ زمینی رشتہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ عقائد کی وجہ سے جب اذان ہوتی ہے لوگ اپنے اپنے مراکز میں تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جب کوئی ثقافتی سرگرمی شادی بیاہ ثقافتی پروگرام کی صورت میں ہوتی ہے تو تمام لوگ بغیر کسی مذہبی تقسیم کے ثقافت کی بنیاد پر اکھٹے ہو جاتے ہیں جو فطرتی رشتہ گھر اور ماں کی جھولی کا تصور ابھار دیتا ہے کہ گھر ایسی جگہ ہے جہاں فرقہ واریت کا اثر کم سے کم. ہوتا ہے بلکہ مامتا کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اور ایسا صرف قومی ریاستوں میں ممکن ہوتا ہے نہ کہ مذہب اور نسل کی بنیاد پر قائم ہونے والی انتظامی یونٹس میں ! آج نسل کی بنیاد پر قائم ہونے والے بلوچستان اور سرحد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد نسل پرستی پر ہے۔ اس لئے ہم ثقافتی بنیادوں پر ریاست چلانا چاہتے ہیں۔ انسانی بقا کے لئے ثقافت سے زیادہ کوئی مضبوط رشتہ نہیں ہے۔ لسانی شناخت کے بغیر انسان جانور تو ہو سکتا ہے انسان نہیں کہلایا جا سکتا۔ بغیر زبان بولے انسان بہرہ اور گونگا ہو جاتا ہے گونگوں اور بہروں کے لئے ریاستیں نہیں بلکہ یتیم خانے ہوتے ہیں۔ یتیم خیرات پر پلتے ہیں جیسے پاکستان میں قومی ریاست کا تصور ابھارے بغیر پاکستان میں رہنے والے امریکی، سعودی عرب، دبئی، یورپ، چین کی خیرات پر پل کر سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے نمائندے بھیک مانگنے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں۔ غلاموں کے صوبے اور قوموں کی ریاستیں ہوتی ہیں۔ تب گداگری ختم ہوگی۔ بیرونی مداخلت کم ہوگی ۔ مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہو گا۔ ریاست دہشت گردوں کی جنت نہیں ہوگی ۔ ریاست پاکیزہ گھر کا تصور پیش کرے گی۔ سرائیکستان قومی موومنٹ ایسی ریاست چاہتی ہے جہاں انسان جاگیرداروں اور جرنیلوں کے غلام نہ ہوں ۔
قوم کیا ھے ؟
مختلف نسلی گروہوں سے جنم لینے والے قبائل جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر ایک قبیلے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کسی ایک خطہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ہزاروں سال سے اکھٹے رہتے ہوئے مختلف عقائد کو اختیار کرنے کے باوجود ایک مشترکہ زبان اور ثقافت تشکیل دیتے ہیں جو ہزار ہا سال کے تجربات عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اپنے مشترکہ مفادات کی وجہ سے اپنی بقا کے لئے ایک ثقافت اور ایک زبان کے ارتقاء کے لئے ہر وقت جدو جہد کرتے رہتے ہیں تا کہ ان کے وسائل منقولہ وغیر منقولہ محفوظ رہیں۔ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکیں ، اندرونی انتشار سے بچیں۔ یہ اجتماعی تصور کسی ایک قوم کا ہو سکتا ہے۔ جس طرح سرائیکستان میں آباد راجپوت جاٹ قبائل سیبڑوں ، ڈیالوں، بھنڈوں ،کھنڈووں وغیرہ کی شکل میں بلوچ نسل کے مختلف قبائل لغاریوں ، قیصرانیوں ، کھترانوں ، دریشکوں، کھوسوں ، بزداروں و ہوت ، لشاری ، رند و غیرہ اسی طرح پختون نسل کے بابڑ ، میا نخیل ، کنڈی، گنڈہ پور، مروت کے علاوہ صدیوں سے بسنے والے علیزئی ، خاجکزئی ، سدوزئی ، مسعود، وزیر وغیرہ جواب اپنے آپ کو پشتون کی بجائے پٹھان شناخت بنا کر سرائیکی قوم اور سرائیکی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ قوم کی بنیاد ثقافتی زبان اور اس خطے میں مروجہ رسومات روزی کمانے کے ذرائع شادی بیاہ کی رسومات اور مذہبی عقائد کے اجتماعی ارتقاء کا نتیجہ اور مذہب ثقافت کا حصہ ہوتا ہے۔ مذہب ایک ملت کی بنیاد مہیا کرتا ہے۔ اسلام ایک دین ہے مختلف ممالک کے لوگ ایک ملت کی شکل میں مشترک ہوتے ہیں ۔ جو مختلف قوموں کا حصہ ہونے کے باوجود ایک ملت میں جڑے ہوئے ہیں ۔ جب مختلف اقوام کے درمیان مفادات کا تصادم ہوتا ہے تو ایک ہی ملت کے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے بنیادی معاشی حقوق کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم میں ایک ہی ملت کے لوگ فرقہ واریت کا شکار ہو کر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں اور ایک دوسرے کی جانیں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے جبکہ اجتماعی ثقافتی سرگرمیوں کی صورت میں تصادم کا خطرہ کم سے کم ہوتا ہے۔ عقیدہ تنہائی میں سکون مہیا کرتا ہے جبکہ ثقافت تنہائی اور اجتماعی طور پر سکون مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ لہذا کسی قوم کی قومی شناخت اور ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ متحدہ مجلس عمل کے دوران نسل پرست پشتونوں نے اپنی ثقافتی شناخت کو مٹانے کے لئے گانے بجانے کیسٹوں اور کمزور ثقافتی مرکزوں ، حجاموں کی دکانوں کو تباہ کر کے انسانی معاشرہ کی بجائے حیوانی معاشرہ کو مذہب کا نام دے کر پروان چڑھایا اور جس طرح انسان انسانوں کو قتل کر رہے ہیں اس کی وجہ انسانوں کو ان کے بنیادی ثقافتی حق سے محروم کرنے کا نتیجہ ہے۔ وہ خود بھی برباد ہو رہے ہیں اور ہمسائے بھی! جس میں سب سے زیادہ اثر سرائیکیوں پر پڑ رہا ہے۔ سرائیکیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لئے انتظامات یونٹ کی بجائے قومی ثقافتی ریاست کیلئے جدو جہد کریں۔ _______________
نسل اور نسل پرستی کیا هے ؟
نسل پرستی نسل کا تسلسل ہوتی ہے جو کوئی ایک گروہ از خود یہ فیصلہ کر لے کہ وہ اپنے مخصوص جغرافیائی حالات میں یا اجتماعی طور پر کسی دوسری نسل کے گروہ یا افراد کو اپنے میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ جیسے یہودیوں کی نسل اپنے آپ کو بین الاقوامی طور پر دوسری نسلوں میں مدغم نہیں ہونے دیتی ۔ یہی ان کا مذہب ہے۔ اس طرح بلوچ اپنے مخصوص جغرافیائی حدود میں اتنا محدود ہوتا ہے کہ ایک بلوچ قبیلہ جب دوسرے بلوچ قبیلہ کی حدود میں آباد ہو جائے تو اقلیتی بلوچ کو اپنی شناخت ختم کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح پشتون نسل پرست کسی دوسری قوم کے فرد کو اپنے میں مدغم ہی نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنے مذہب اور عقیدے کو اپنی نسل پسندانہ روایات کے تابع کر کے اسے مذہب کا نام دے دیتے ہیں ۔ اور اپنے تشخیص کردہ مذہب کو دوسرے اقوام پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لئے بعض حالات میں نسل پرستی فرقہ پرستی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں بلوچوں اور پشتونوں کی نسل پرستی نہ صرف پاکستان کیلئے بلکہ اپنی ہمسایہ اقوام کیلئے بھی خطرہ کا سبب بن گئی ہے۔ بلکہ پشتون نسل کے لوگ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ ان کا یہ کردار صدیوں سے متحدہ ہندوستان کے لئے تو تھا ہی لیکن آج سرائیکیوں کیلئے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ جس کی وجہ اغواء برائے تاوان ، ہیروئن، اسلحہ یا جرائم کو رواج دینا پشتون نسل پرستوں کا ایک مخصوص وطیرہ ہے۔ حتی کہ ایک ایسا گروہ جو صرف مالی وسائل کے حصول کے لئے دہشت گرد بنا کر فروخت کرنے کی صنعت کو بڑھاوا دے کر اپنی جرات اور بہادری کے تذکرے کرنا فخر سمجھے تو پھر اس خطے میں تباہی نہیں آئے گی تو اور کیا آئے گا؟ ہر دو نمبر کا کام کرنے کے لئے پشتون تیار ہے۔ یہ تلخ فقرے منشور کا حصہ اس لئے بنائے جا رہے ہیں تاکہ سرائیکی سرائیکستان میں وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو پشتون ، بلوچ نسل پرست پنجابی بالا دستوں اور ہجرت کے نام پر فاشسٹ گروہ تشکیل دینے والوں سندھی جاگیر داروں اور سرائیکستان کے انگریزوں کے مراعات یافتہ جاگیرداروں، گدی نشینوں کی پیروی سرائیکی عوام نہ کرے اور اپنی قومیتی ، طبقاتی جدو جہد کو عقیدہ کی حد تک امتیازی عمل کے ساتھ نمایاں طور پر تسلسل سے اپنے عمل کو جاری رکھیں اور دوسری اقوام کی پیروی کی بجائے اپنا فلسفہ "چُلھ دی خیرتاں کُل دی خیر" کو مشعل راہ بنا ئیں۔ _____________
جاگیردار کون؟
یہاں جاگیرداروں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم وہ جو انگریز حکمرانوں نے اپنی ضرورت کے تحت جاگیردار تمن دار، سردار، ذیلدار، نمبر دار، چوکیدار، پیدا کئے اور ساتھ ہی سابقہ متحدہ ہندوستان میں 625 کے قریب خود مختیار ریاستیں اور پر گئے پیدا کئے ۔ جیسا کہ متحدہ ہندوستان میں ریاست بہاولپور کے جنوبی کونے پر ما چھکا کے مقام پر ایک چھوٹی سی خود مختیار ریاست جو چند ہزا را یکڑ پر محیط تھی اندرونی طور پر خود مختیار کر دی گئی ۔ جبکہ ریاست نیپال اور قلات کا درجہ باقی تمام ریاستوں سے بڑھ کر تھا۔ دوسری قسم ، ہجرت کرنے کے بعد جعلی کلیموں کے ذریعے جعلی جاگیردار پورے پاکستان میں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کو بنایا گیا کیونکہ نئی تشکیل کردہ پاکستانی ریاست میں نوے فیصد حکمران گروہ کا تعلق ہندوستان سے آئی ہوئی اشرافیہ کا تھا جس میں قائد اعظم ، لیاقت علی خان سکندر مرزا، ضیاء الحق، پرویز مشرف نواز شریف کے والد محمد شریف موجودہ الطاف حسین اور اس کے بزرگ سب وراثتی کلیموں کے سر پرست ہیں اور تھے۔ تیسری قسم ، جو پاکستان کی فوجی اور سول افسر شاہی نے پاکستان میں موجود گورنمنٹ کی اراضی کو ہضم کرنے کیلئے اس اراضی کی تقسیم کیلئے مختلف سکیمیں بنا کر نئے جاگیردار پیدا کئے جس میں موجودہ پرویز مشرف کو نمبرداری سکیم کے تحت بہاولپور میں زمینیں الاٹ ہوئیں اور مولانا فضل الرحمن کے تحت ان کے متعلقہ لوگوں کو ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازیخان میں زمینیں دی گئیں جس کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان تینوں اقسام کا خاتمہ اس لئے ضروری ہے کہ ان تینوں گروہوں نے حق حکمرانی حاصل کرنے کے بعد ایک سازش کے ذریعے بینکوں اور صنعتوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ حکمرانی کیلئے فتوی باز مولوی بھی اکھٹے کر لئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے تمام گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے پاکستانی آئین کو اسلامی آئین کہہ کر ہر گناہ کو مذہب کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ ہر کام کی ابتدا تلاوت کلام پاک سے کرتے ہیں ، ہر تقریب کا اختتام قرآنی آیات کے تراجم سے کرتے ہیں۔ ایک مصنوعی جعلی جاگیردارانہ جمہوریت جسے امریکی سر پرستی حاصل ہے اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس قوت کو ختم کرنے کیلئے بنیادی طاقت جاگیرداری کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کی جاگیریں تحقیق کے بعد جو ان کی اپنی جائز کمائی کے ذریعہ جو انہوں نے پیدا کیں ان جاگیروں کو با معاوضہ ضبط کر کے انہیں اس کی قیمت اقساط میں ادا کی جائے۔ ناجائز حاصل کردہ جاگیروں کو ضبط کیا جائے ۔ کسانوں کو با معاوضہ اقساط میں زمین دی جائے۔ دوسرے وسائل مہیا کئے جائیں بغیر محنت کے زندہ رہنے والے انسانی درندوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی محنت کریں۔ صنعتی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہر صورت میں کیا جائے گا۔ جعلی لیبر یونینوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ ترقی پسندی کے نام پر کیمونسٹ فلسفہ کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ دنیا میں دو نعرے کہ دنیا بھر کے مزدورا کھٹے ہو جاؤ اور مزدورں کے ڈکٹیٹر شپ پوری دنیا میں قائم کی جائے۔ اسی طرح آج کے جدید دور میں مذہب کے نام پر خلافت کے بہانے پوری دنیا کو غلام بنانے کا عمل جاری رکھ کر افغانستان جیسے حالات پیدا کرایا سوات جیسی مذہبی ریاست قائم کرنے جیسے حالات کی مزاحمت کی جانی ضروری
ہے۔ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ ہو یا مذہبی جنونی نظریہ کا نفاذ ، دونوں صورتیں قومی
ریاست قومی حقوق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو کسی صورت میں
برداشت نہ کیا جائے۔ خطے میں موجود تمام عقائد اور ثقافتوں کا احترام کیا جانا
ضروری ہے۔
مهاجرین کا مسئله
سازش کے طور پر قیام پاکستان کے وقت دوسری قوموں کے وسائل پر قبضہ
کرنے کیلئے ہندوستان سے مذہب کے نام پر ہجرت کا عمل شروع ہوا۔ پھر افغان
جنگ میں مذہب کے نام پر لاکھوں افراد کی ہجرت کرائی گئی۔ اب سوات سے
ہجرت جاری ہے اور اس سب عمل کو سنت کہا جا رہا ہے۔ حکمران خود ہجرت کا
بندو بست کرا رہے ہیں اور مہاجرین کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھیک مانگ
رہے ہیں۔ مہاجرین کی سوچ کے ہاتھوں حکمران مجبور اور سدا بہار بھکاری ہیں ۔
ان حالات سے چھٹکار ا سرائیکستان قومی موومنٹ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
مقامی ھندوؤں کا انخلا اور اس کے اثرات:
مقامی ہندوؤں کی خطہ سرائیکستان سے بے دخلی سماجی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنی
ہے۔ انسانی ثقافتی رشتے جن کی بنیاد پر قو میں تشکیل پاتی ہیں اس میں رکاوٹ پیدا
ہوئی ہے۔ اس لئے باہر سے آنے والے مہاجرین مقامی ثقافتوں کا اس لئے حصہ نہ
بن سکے کہ ان کی لکھنؤ کی زبان اُردو کو سرکاری زبان قرار دے کر مصنوعی پاکستانی
قوم بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، سندھ میں
لسانی فسادات ہوئے ، پنجابیوں نے ہوس قبضہ گیری کی وجہ سے انڈیا سے آئے ہوئے مہاجرین کی حوصلہ افزائی کی۔ مقامی خطوں کی مقامی ثقافتوں کو تباہ کرنے کی
کوشش کی گئی۔ نتیجتاً سوسائٹی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی ۔ اُردو تہذیب و زبان کو اسلام کا
متبادل قرار دیا گیا جس کو اُردو میڈیا نے غذاء مہیا کی جس سے خطہ سرائیکستان پر منفی
اثرات مرتب ہوئے ۔ جس سے مستقل طور پر تناؤ ، تہذیبوں و ثقافتوں کا ٹکراؤ جاری
ہے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے اُردو بولنے والے مقامی ثقافتوں میں ضم ہونے
کی بجائے قدیمی اقوام کے خلاف مسلسل سازشوں میں شریک ہیں ۔ جس کا توڑ
کرنا سرائیکستان قومی موومنٹ کا بنیادی فرض ہے کہ کم سے کم نقصان اور تصادم کے
بغیر آنے والے مہاجرین کو سمجھایا جائے کہ وہ مقامی ثقافتوں کا حصہ بن جائیں ۔
کیونکہ اب انہیں تجربہ ہو جانا چاہئیے کہ ہندوستان کی دھرتی سے بے وفائی کر کے
ہجرت کرنے والوں کو دوسرے خطوں میں بھی مہاجر سوچ کی موجودگی میں امن
نصیب نہیں ہو سکتا۔ مہاجر امن کا دشمن ہوتا ہے۔ امن اور مہاجر بیک وقت ہم سفر
نہیں ہو سکتے۔ سدا بہار مہاجرین کی موجودگی میں امن کا تصور بھی ممکن نہیں ۔
سرائیکستان قومی موومنٹ کے کارکنان کو ہر حال میں اپنی دھرتی کا دفاع کرنا ہوگا۔
دوسرا مسئلہ اس خطہ میں پنجابی آباد کاروں کا ہے جو ابھی تک معاشی مفادات کی وجہ
سے لاہور کی طرف دیکھتے ہیں۔ پورے سرائیکی خطہ میں چھوٹے چھوٹے گروہ کی
شکل میں موجود ہیں ۔ مقتدر سرائیکی جاگیرداروں کو بلیک میل کر کے لاہور کے
حکمرانوں کی مدد سے نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔ روز مرہ سیاسی حقیقتوں کی بنیاد
پر سرائیکستان قومی موومنٹ کے کارکنوں کو اپنا لائحہ عمل " تیار کرنا ہوگا ۔ یہی صورت
حال ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں نئے پشتون آباد کاروں کی ہے
جنہیں پشاور کی حکومت کی حمایت حاصل ہے سرائیکیت کے پردے میں مقامی ایم پی ایز ، ایم این ایز پشاور جا کر پشتون بن جاتے ہیں۔ ان مسائل کا حل بھی روزمرہ
سیاسی ضرورتوں کے تحت سرائیکستان قومی موومنٹ کو ڈھونڈنا ہے۔
پورے پاکستان بالخصوص سرائیکستان میں امریکہ برطانیہ دبئی سعودی عرب
ایران چین غرضیکہ تمام ممالک کی مداخلت اور پاکستان کی فوج کے درمیان امریکہ
کے براہ راست رابطوں سے پاکستانی فوج کی افسر شاہی کے پنجابیوں اُردو بولنے
والوں کے ہاتھوں یرغمالی کیفیت کو بھی ذہن میں رکھنا ہے۔ ساتھ ہی سندھی
جاگیردار جو سندھ کارڈ کو استعمال کر کے مرکز پہ قابض ہو جاتے ہیں ۔ پنجابیوں کو
خوش کرنے کے لئے سرائیکی جاگیرداروں کو شرکت اقتدار کا موقع دے کر
سرائیکیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ اس
کا بھی توڑ ڈھونڈنا ، قومیتی عمل کے ساتھ ساتھ طبقاتی جدو جہد کو جاری رکھنا
سرائیکستان قومی موومنٹ کی پالیسی کا حصہ ہونا چاہئیے کہ کسی بھی ہمسایہ قوم کے
اندرونی حالات میں مداخلت نہ کی جائے بلکہ دوسری قوموں کو بھی اپنے اندرونی
حالات میں مداخلت کا موقع نہ دیں۔